18 نومبر 2025 - 20:35
اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کیا ہوتا؟

سورہ انبیا کی آیات میں، قرآن اس سوال کا جواب واضح طور پر بیان کرتا ہے: نظم و ترتیب اور ربط و ہم آہنگی  سے بھرپور یہ کائنات صرف ایک مدبر کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ اگر آسمان اور زمین متعدد خودمختار طاقتوں کے درمیان تقسیم ہوتے، تو نہ تو کوئی ہم آہنگی باقی رہتی اور نہ ہی بقا ممکن ہوتی۔ کائنات اپنی پیدائش کے پہلے ہی لمحے میں بکھر کر رہ جاتی۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ انبیا کی آیت 25 ایک بنیادی حقیقت سے شروع ہوتی ہے: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم صرف میری ہی عبادت کرو۔" تمام پیغمبروں کے پیغام کا محور توحید اور ہر قسم کے شرک کا انکار ہے۔

کوئی بھی پیغمبر نے کوئی مختلف دین نہیں لایا ہے؛ فرق صرف شرائع (قوانین) میں ہے، نہ کہ دین کی بنیادی حقیقت میں۔ قرآن اس اصول کو سورہ انبیا کے تناظر میں دہراتا ہے، جو پیغمبروں کی تاریخ بیان کرتی ہے، تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ تمام دعوتیں ایک ہی مقصد پر ختم ہوتی ہیں: خدائے واحد کی عبادت اور حقیقی بندگی۔

یہ آیت آج کی دنیا کے لئے بھی ایک پیغام رکھتی ہے؛ ایک ایسی دنیا جہاں متعدد آوازیں انسان کو نئی غلامیوں اور جدید بتوں کی طرف بلاتی ہیں۔ اس محور کی یاد دہانی کا مطلب ہے: اصل آزادی کی طرف واپسی، طاقتوں، خواہشوں اور بنائے ہوئے خداؤں کی غلامی سے نجات کی دعوت۔

تہمت، تحریف اور تمسخر؛ دشمنانِ حق کا ردعمل

آیات 26 اور 27 پیغمبروں کے مخالفین کے رویے کی تصویر کشی کرتی ہیں؛ وہ فرشتوں کو "خدا کی بیٹیاں" کہتے تھے اور جھوٹے الزامات لگا کر عمومی فضا کو الہامی پیغام کے خلاف زہر آلود کرتے تھے۔ قرآن وضاحت کرتا ہے کہ فرشتوں کا ایسا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے؛ وہ خدا کے معزز بندے ہیں، وہ کبھی اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور صرف وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

یہ آیات حق کے دشمنوں کے "کے طرز عقل کا نمونہ" پیش کرتی ہیں: جب ان کے پاس دلیل کی طاقت نہیں ہوتی، تو وہ مقدس تصورات کو مسخ کرنے اور جھوٹے الزامات لگانے پر اتر آتے ہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو آج بھی میڈیا، تشہیراتی مہمات اور ادراکی کاروائیوں (Cognitive Operations) کی شکل میں جاری ہے۔

فرشتے؛ نہ تو خدا کے شریک ہیں اور نہ ہی اس کے حریف

ان تہمتوں کے جواب میں، آیت 28 زور دیتی ہے کہ فرشتوں کا کوئی ذاتی اختیار نہیں ہے؛ خدا ان سب کے ماضی اور مستقبل کو جانتا ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت نہیں کر سکتا۔ یہ بیان توحید ربوبی کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے: کائنات کی باگ ڈور ایک مطلق طاقت کے ہاتھ میں ہے اور کوئی مخلوق، یہاں تک کہ فرشتے بھی، اس کی اجازت کے بغیر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔

آج کی دنیا میں، جہاں کچھ حلقے شخصیات، افراد یا نظاموں کو مقدس بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ آیت سننے والے کو خبردار کرتی ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کو تقدس بخشنا ایک گمراہی ہے؛ حقیقی تقدس صرف خالق اور کائنات کے مدبر کے لیے ہے۔

اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کیا ہوتا؟

اگر کائنات میں کئی خدا ہوتے، تو کائنات تباہ و برباد ہو جاتی

توحید کے بارے میں قرآن کا ایک مضبوط ترین استدلال اسی حصے میں ہے: اگر آسمانوں اور زمین میں خدا کے سوا کوئی اور خدا ہوتا، تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور ہر ایک کائنات کو اپنی بادشاہت کی طرف کھ؛نچتا۔ یہ فلسفیانہ اور وجودیاتی دلیل، مشاہدے کی بنیاد پر بھی قابل فہم ہے؛ کائنات کا حیرت انگیز نظام اور کائناتی قوانین کا باہمی ربط، واحد انتظام اور یکتا ارادے کی نشاندہی کرتا ہے۔

لہٰذا، طاقتوں کی کثرت، تسلط کے مراکز اور زمینی خداؤں کے مقابلے میں، قرآن ایک حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے: عالمی انتظام کی وحدت، معبود کی وحدت کی دلیل ہے۔

رات اور دن میں درست نظام؛ سورج اور چاند کی گردش

آیت 33 "اللَّیْلَ وَالنَّهار(رات اور دن)" اور "الشَّمْسِ وَالْقَمَر (سورج اور چاند)" کی طرف اشارہ کر کے کائناتی نظم کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیر رہا ہے اور ایک درست (Accurate) حساب کتاب کے مطابق حرکت کر رہا ہے۔ یہ نظم، الٰہی تدبیر سے پیدا ہوئی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ کائنات اتفاقی نہیں ہے؛ یہ منصوبہ بند بھی ہے اور با مقصد بھی۔

آج کے انسان کے نقطۂ نظر سے، یہ آیت علم اور ایمان کے درمیان ربط قائم کرتی ہے۔ ہم فلکیات (Astronomy) اور کونیات (Cosmology) میں جتنا آگے بڑھتے ہیں، اس "واحد تدبیر" کی عظمت مزید واضح ہوتی جاتی ہے۔

اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کیا ہوتا؟

کوئی انسان، یہاں تک کہ کوئی پیغمبر, جاویدانی نہیں ہے

آیت 34 ان جھٹلانے والوں کا جواب ہے جو گمان کرتے تھے کہ پیغمبر کو ہمیشہ کی زندہ حاوید ہونا چاہئے یا موت کو قبول نہ کرے۔ قرآن حقیقت بیان کرتا ہے: "وَما جَعَلْنا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ؛ اور ہم نے پیغمبر سے پہلے بھی، کسی انسان کو ابدیت قرار نہیں دی"۔ یعنی پیغمبر سے پہلے بھی کوئی بشر زندہ نہیں رہا۔ موت کا قانون سب پر لاگو ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ عظیم ترین انسان بھی اسی الٰہی سنت کے تحت زندگی گذارتے ہیں اور انتقال کرتے ہیں۔

آج کی دنیا میں، جہاں انسان "مصنوعی ابدیت" کے وہم میں ڈوبا ہوا ہے ـ جوانی بحال کرنے سے لے کر ڈیجیٹل جاودانگی کی خواہش تک ـ یہ آیت یاد دلاتی ہے کہ فنا ہونا انسان کی شناخت کا حصہ اور تشخص کا تسلسل ہے۔

اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کیا ہوتا؟

ہمہ گیر آزمائش اور ہمہ گیر اختتام

آیت 35 اس حصے کا خلاصہ پیش کرتی ہے: تمام انسان موت کا مزہ چکھیں گے اور اس سے پہلے آزمائش میں ڈالے جائیں گے۔ دنیا آزمائش کا میدان ہے؛ کبھی نعمتوں کے ذریعے اور کبھی سختیوں کے ذریعے۔ کوئی بھی آزمائش کے راستے سے گذرے بغیر اپنی منزل تک نہیں پہنچتا۔ یہ آیت الٰہی انصاف کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے؛ سفر کے آخر میں، سب اسی کی طرف لوٹیں گے اور اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھیں گے۔

یہ نقطہ نظر آج کے انسان کو "بے یار و مددگار" ہونے اور کھوکھلے پن کے کے احساس سے نکالتا ہے اور یاد دہانی کراتا ہے کہ اس کی ابدی تقدیر میں، اس کا کوئی بھی عمل، فیصلہ یا موقف غیر مؤثر نہیں ہے؛ [یعنی اس کا انجام اس کے اپنے اعمال سے تشکیل پاتا ہے]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

قر‏آن کریم کے صفحہ 324 پر ان آیتوں کو دیکھیں اور سنیں:

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha